" بچی کی طبیعت بلکل خراب ہے. اگر گھر لے جاؤگے تو بچی مرجائے گی. اگر بچی سے تنگ ہو تو بتاؤ! میں اسپتال میں ابھی اعلان کرتا ہوں، کوئی نہ کوئی آئے گا اور بچی کو لے جاکر اس کی پرورش کرے گا اور اگر آپ کے پاس پیسے نہیں ہیں تو بچی کو چھوڑ کر گھر چلے جاؤ! میں بچی کا علاج کرتا ہوں جب ٹھیک ہوجائے تو پھر لے جانا اور جب ہوسکے تو بل ادا کرنا. باقی میں بچی کو ہاتھ سے مارنا نہیں چاہتا".
یہ الفاظ تھے شہر کے سب سے اچھے اور مصروف ڈاکٹر کے جنہوں نے مجھے رلانے کے ساتھ ساتھ حوصلہ بھی دیا.
دراصل میرے پاس اس وقت اتنی طاقت بلکل نہیں تھی کہ میں بچی کے علاج پر روزانہ تین سے چار ھزار روپے خرچ کرسکتا. کیونکہ میں ایک وڈے دیندار اور کافی وڈے مالدار شخص کے مدرسہ میں دس ہزار سے بھی کم تنخواہ پہ پڑھاتا تھا جہاں سے مجھے بچی کے علاج کے لیے اضافی تعاون تو درکنار، ایڈوانس رقم ملنے کی بھی امید نہیں تھی. گھر میں موجود رقم کے ساتھ ساتھ گھر والوں کے زیورات بھی بیچ چکا تھا اور اس کے بعد میرے پاس کچھ نہیں بچا تھا جسے بیچ کر بچی کا علاج جاری رکھ سکتا اور نہ ہی کوئی ایسا تھا جو مجھے چار روپے قرض ہی دے سکتا. بس ہر کوئی رسمی تیمارداری کرلیتا تھا وہ بھی فون پہ. کسی کو پتہ نہیں تھا کہ میں کس کرب سے گذر رہا ہوں اور میری بچی کی کیا کنڈیشن ہے.
میں نے ان ہی دنوں میں #شہد کا کام بھی شروع کیا تھا جس میں بھی بڑے پیمانے پر نقصان کرچکا تھا.
بچی کی پریشانی، قرض خواہوں کے بھونڈے رویوں اور مدرسہ والوں کی دینی فکر نے مجھے خودکشی کے قریب کردیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے حوصلہ دیا اور میری دستگیری فرمائی. 

بڑے پیمانے پر مقروض ہوچکا تھا لیکن ڈاکٹر کی حوصلہ افزائی کی وجہ سے میں نے ھمت باندھی اور بچی کا علاج جاری رکھا جس کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے بچی بھی صحت مند ہوگئی اور آھستہ آھستہ میرے قرضے بھی اترتے گئے. تقریباً اگلے ایک سال تک میں قرض اتارتا رہا.
شہد میں ہونے والا نقصان بھی ایک شہد فروش دوست کی محبتوں سے رکور ہوگیا اور میں پاکستان کے مشہور شہد فروشوں میں ایک بن گیا الحمدللہ 

آج یہ بچی میری گود میں ہے اور اس کا نام زینب ہے لیکن پیار میں ماشاءاللہ میں نے "دل" نام رکھا ہوا ہے اس پر
.

سیلاب زدگان کی معاشی پریشانیوں، بے گھر ماؤں بہنوں اور بیمار بچوں کو دیکھ کر اپنا وقت یاد آگیا اس لیے لکھا ہے. لکھنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ:



Tags
News Paper